Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر12

وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں آکے بند ہوگئی تھی اس میں جانے کہاں سے اتنی ہمت آ گئی تھی کہ وہ شایان کے منہ پہ اتنا سب بول آئی تھی اور یہ سچ بھی تھا وہ احسان فراموش نہیں تھی کہ جنہوں نے اسے سہارا دیا وہ انہی کے بیٹے کے ساتھ محبت کی پینگیں چڑھائے گھر میں کسی کو پتہ چل جاتا تو کیا سوچتا اس کے بارے میں۔۔۔۔۔ اسے پتہ تھا کہ عانیہ شایان کو پسند کرتی ہےیہ بات اسے ساوی نے بتائی تھی دونوں نے کبھی ایک دوسرے سے کُچھ نہیں چھپایا تھا ۔۔۔ عانیہ اس کے سگے ماموں کی بیٹی ہے ساوی کی مما جتنا بھی اس سے پیار کریں مگر اپنی بھتیجی پہ تو اسے فوقیت نہیں دیں سکتیں نہ۔۔اس لیے اس نے سوچا تھا کہ وہ خود ہی شایان سے دور رہے۔۔ اور اب وہ زاروقطار رو رہی تھی بے شک وہ اسے کہہ آئی تھی مگر دل کے کسی خانے میں وہ شخص اسی دن بس گیا تھا جس دن پہلی بار اس نے اس کی تصویر دیکھی تھی۔۔۔۔مگر اپنے ڈر اور خوف کا کیا کرتی جو کسی پل چین نہ لینے دیتے تھے۔۔۔۔ اسے خوف تھا اگر شایان نے ماما سے بات کی اور آگے سے انہوں نے منع کر دیا اور سارا قصور اسی کا نکالا تو وہ اسے گھر سے نکال دیں گیں پھر وہ کہاں جائے گی ایک بار پھر سے وہ تنہا نہیں ہونا چاہتی تھی ذلّت اُٹھانے سے بہتر تھا کہ وہ شایان کو بھلا کے عزّت سے جیئے۔۔۔۔۔ روتے روتے اس کا سر بھاری ہو گیا تھا اس نے سر درد کی دو گولیاں پانی کے ساتھ کھائیں اور دروازہ لاک کر بستر پہ لیٹ گئی آج اسے اپنے ماما بابا کی شدت سے یاد آرہی تھی اور وہ خود کو نہایت بے بس محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔۔انہی سوچوں میں گم وہ گہری نیند کی آغوش میں چلی گئی جہاں نہ کوئی پریشانی کوئی الجھن نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔


ساوی اپنے کمرے میں افرحہ کا انتظار کر رہی تھی مگر اس کا انتظار انتظار ہی رہا نہ افرحہ کو آنا تھا نہ ہی وہ آئی ساوی نے اپنی ساری چیزیں کبرڈ میں سیٹ کیں اور افرحہ کی چیزیں اٹھائے اس کے کمرے میں آئی دو تین دستک کے بعد بھی اس نے دروازہ نہیں کھولا تو وہ یہی سوچتے واپس چلی گئی کہ شاید سو گئی ہے۔۔۔۔۔ وہ اپنے کمرے میں آ کے بکس پڑھنے لگی دن کے بارہ بج رہے تھے جب اس کے دروازے پہ دستک ہوئی اور کوئی آہستہ سے دروازہ کھول کے اندر آیااور اس کے پاس بیڈ پر آکے بیٹھ گیا۔۔۔ کیا کر رہی ہو؟؟ آنے والے نے پوچھا ۔ کُچھ نہیں افرحہ سو گئی تھی اور میں بور ہو رہی تھی اس لیے بکس پڑھ رہی ہوں ۔۔۔۔وہ منہ بناتے ہوئے بولی آہاں تو میری چڑیا بور ہو رہی ہے باہر چلیں تمہارا موڈ فریش ہو جائے گا ؟؟ وہ اسکی طرف دیکھتا پوچھ رہا تھا ۔۔۔ نہیں اب تو لنچ ٹائم ہونے والا ہے لنچ سب ساتھ ہی کریں گے ۔۔۔۔۔ وہ انکار کرتے ہوئے بولی۔۔ اچھا تو پھر کیا کروں کہ تمہارا موڈ ٹھیک ہوجائے ؟؟ وہ اس کے ہاتھ تھامتا پوچھ رہا تھا ۔۔ آپ مجھے گانا سنائیں ۔۔۔۔وہ شرارت سے بولی۔۔۔ گانا اور میں لائک سیریسلی؟؟؟ تمہں پتہ ہے مجھے گانا نہیں آتا میں نے گان گایا تو تمہارے کان پھٹ جائیں گے۔۔۔۔وہ ہنستا ہوا بولا جائیں پھر میں نہیں بولتی آپ سے ایک گانا نہیں گا سکتے میرے لیے؟؟؟ وہ خفگی سے گویا ہوئی۔۔۔ اچھا تم ناراض تو مت ہو میں تمہیں کُچھ اور سناتا ہوں نا ۔۔۔۔ وہ اس کا چہرہ اپنی طرف موڑتا ہوا بولا جو وہ ناراضگی سے دوسری طرف کر چکی تھی۔۔۔۔۔ اچھا سنائیں ۔۔۔۔۔وہ احسان کرنے والے انداز میں بولی۔۔۔ اپنے پاس رکھ لو نہ مجھے کوئی پوچھے تو کہہ دینا کہ دل ہے میرا ❤ وہ اس کا یاتھ اپنے دل پہ رکھتا معنی خیزی سے بولا تو اس کے عارض گلابی ہو گئے اور وہ پُرشوق نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔۔ رکھو گی نا اپنے دل ؟؟ وہ پوچھ رہا تھا ۔۔ مم میں میں۔۔۔اس سے کُچھ بولا نہ گیا تو دونوں ہاتھ چہرے پہ رکھ گئی اور وہ بے ساختہ قہقہہ لگا گیا۔۔۔ اچھا سُنو !!! میں بہت جلد چچا چچی سے اپنے اور تمہارے بارے میں بات کرنے والا ہوں ۔۔۔۔۔ کیا بات؟؟ وہ حیران ہوئی ارے میری گُڑیا اب ساری زندگی ایسے ہی تو نہیں رہنا نا تمہارے ساتھ جہاں تمہارے کمرے میں آنے کے لیے بھی سوچنا پڑتا ہے ۔۔میں چچا چچی سے ہماری شادی کی بات کرنا چاہتا ہوں تا کے تم جلدی سے میرے نام ہو کے میرے روم میں آجاو اور میں بغیر دستک دیئے بھی تمہارے پاس آسکوں۔۔۔۔۔ وہ شرارتی لہجے میں اسے بتا رہا تھا۔۔۔ شش شادی اتنی جلدی درید ۔۔۔ ابھی تو میری سٹڈی بھی کمپلیٹ نہیں ہوئی ابھی نہیں پلیز۔۔۔۔۔وہ اس کی بات پہ حیران ہی رہ گئی۔۔۔ یار تو میں کون سا پڑھائی سے منع کروں گا تم آگے پڑھ لینا جتنا چاہے بس شادی ہونے دو۔۔۔۔۔وہ اسے مناتا ہوا بولا۔۔۔ لل لیکن شادی کے بعد نہیں پڑھا جاتا ۔۔۔۔۔۔ لیکن ویکن کُچھ نہیں میں چچی سے بات کرنے والا ہوں اور جو وہ کہیں گی وہی ہو گا اور شادی کے بعد میں خود پڑھا لوں گا ۔۔۔۔۔۔ وہ حتمی لہجے میں بولا۔۔ جو مرضی کریں آپ ۔۔۔۔وہ ناراض سے لہجے میں بولی۔۔۔ میری معصوم چڑیا میری گُڑیا اپنے درید کو سمجھو نہ کوئی وجہ ہے تو میں کہہ رہا ہوں نہ۔۔۔۔۔۔وہ بے بسی سے بولا ٹھیک ہے کُچھ نہیں کہہ رہی میں جو آپ اور مما کہیں گے وہی ہو گا۔۔۔۔ وہ اسے بے بس تو کبھی نہیں دیکھ سکتی تھی فوراً مان گئی دیٹس لائک آ گڈ گرل۔۔ اب میں چلتا ہوں تم ریسٹ کرو۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے گال تھپتھپاتا ہوا بولا ۔ جی ۔۔۔۔ وہ سر ہلا کے اسے جاتا دیکھتی رہی۔۔۔۔


ابھی وہ روم۔میں آ کے بیٹھا ہی تھا کہ شایان آ دھمکا ۔۔ مجھے تم سے کُچھ ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔وہ سنجیدہ سے لہجے میں بولا ۔۔ کیا بات ہے تم پریشان لگ رہے ہو۔۔۔۔ وہ اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا ہاں۔۔۔ تم مجھے افرحہ کے بارے میں بتاو وہ یہاں کیسے میرا مطلب وہ ہمارے گھر میں کیوں رہتی ہے اور اس کے بابا کدھر ہیں؟؟؟ اس کی بات سن کر درید نے گہرا سانس بھرا اور آیستہ آہستہ اسے ساری بات بتانے لگا جسے سن کے اسے ایک طرف اطمینان ہوا کہ چلو اب وہ اس کے سامنے تو رہے گی اور دوسری طرف اس کے دکھ کا احساس ہوا۔۔۔۔ ویسے تم کیوں پوچھ رہے ہو کہیں کُچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شرارت سے کہتا بات ادھوری چھوڑ گیا۔ وہ بھی بتاتا ہوں پہلے یہ عانیہ والی بات بھی بتاو مما کیا سوچ رہی ہیں میرے اور عانیہ کے بارے میں۔۔۔۔ شایان نے سنجیدگی سے پوچھا۔ تمہیں اس بارے میں کس نے بتایا ؟؟ وہ اس کے منہ سے عانیہ کا ذکر سن کر چونکا۔ میری سویٹ ڈش نے۔۔۔۔۔ وہ اسے آنکھ مارتا بولا اور اس کی حرکت پہ درید ہنس پڑا ۔ بہت کمینہ ہے تو مطلب میرا شک سہی تھا تو جس رات آیا تھا اسی رات افرحہ سے مل چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ آنکھیں سکیڑے پوچھ رہا تھا ۔۔ جی بلکل نہ صرف ملا بلکہ اسے بتا بھی دیا ۔۔۔۔ وہ مزے سے بولا ۔ کیا بتا دیا؟؟؟ یہی کہ وہ صرف میری ہے کسی اور کے بارے میں نہ سوچے۔۔۔۔ وہ اس کا چہرہ تصور میں لیے بول رہا تھا۔۔۔ دھیان سے یار میری بہن بہت معصوم ہے کُچھ الٹا سیدھا مت کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لہجے میں بھائیوں والا مان سموئے بولا وہ تیری بہن کب سے ہو گئی ؟؟؟ شایان نے بھنوئیں اچکائیں۔ جب سے تو اس کا سیّاں ہوا تب سے ہی میں اس بھیا ہوا۔۔۔۔۔ وہ شرارت سے بولا اور پھر وہ دونوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔۔۔ اچھا اب پھر بات کر لینا چچا چچی سے اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے اور وہ عانیہ سے تمہارا رشتہ طے کر دیں ۔۔۔۔۔ اب کی بار درید نے سنجیدگی سے مشورہ دیا ۔ ہاں بات تو کروں گا میں اور وقت سے پہلے ہی کروں گا شادی تو میری صرف تیری بہن سے ہی ہو گی تو فکر مت کر سالا تو تو ہی بنے گا میرا۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس کی طرف دیکھتا اسے چڑاتا ہوا بولا ۔۔۔۔ ہاہاہا کیوں نہیں بہنوئی صاحب ہم تیار ہیں ۔۔۔۔۔وہ ایک ہاتھ سینے پہ رکھتا اس کے سامنے جھکتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ طل ٹھیک ہے تو ریسٹ کر لے آفس سے آتے ہی میں تجھے لے کے بیٹھ گیا۔۔ شایان دروازے کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔۔۔ اب وہ اسے کیا بتاتا کہ اس سے پہلے ہی وہ آفس سے آتے ہی اپنی چڑیا سے ملنے چلا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔


اسلام ُعلیکم ۔۔۔۔۔۔ وہ دھیرے سے صوفے پہ بیٹھتی ہوئی بولی۔ اس کا ساتواں مہینہ چل رہا تھا اور ڈاکٹر نے بہت احتایط بتائی تھی کیونکہ وہ بہت ویک تھی اور عمر بھی کم تھی۔۔۔۔ کیسی ہو گُڑیا؟؟؟ مقابل کی آواز سن کے اس کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔۔۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں بھائی آپ کیسے ہیں؟؟ اور ماما کیسی ہیں وہ ٹھیک ہیں نہ ؟؟ آپ مجھ سے ملنے کیوں نہیں آتے ؟؟؟ بہت یاد کرتی ہوں میں آپ کو ماما کو ۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے آنسووں پہ قابو نہ پا سکی اور روتے ہوئے بولی۔۔۔ ارے میری گُڑیا آرام سے سانس تو لے لو ۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں ماما بھی ٹھیک ہیں اور میں کیسے تم سے ملنے آوں پتہ تو ہے تمہیں تمہارے شوہر کا۔۔۔ کتنا غصے والا ہے ایسا نہ ہو مجھے مار کے گھر سے ہی نکال دے ۔۔۔۔۔۔ وہ اسے بہلاتے ہوئے شرارت سے بولا ۔۔ آپ منا لیں نا انہیں پھر تو آپ کو کُچھ نہیں کہیں گے۔۔۔۔ وہ اپنی طرف سے آسان سا مشورہ دیتی بولی۔۔۔۔ وہ تبھی مانے گا جب وہ مل جائے گی اور وہ کب ملے گی پتہ نہیں۔۔۔ دونوں ہی مجھ سے ناراض ہیں کسی کو میرے خسارے کا احساس نہیں۔۔۔ میں کتنی تکلیف میں ہوں کوئی اس بارے میں بھی تو سوچے۔۔۔۔وہ درد بھرے لہجے میں بولا ۔۔۔ میں جانتی ہوں بھائی اور سمجھتی بھی ہوں آپ کی تکلیف کو ۔۔۔۔۔ مگر کبھی کبھی ہمارا کیا گیا بہت بری طرح سے ہمارے سامنے آکے کھڑا ہو جاتا ہے کہ سزا کے بغیر کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔۔۔۔۔۔ وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بولی۔۔۔۔۔ ہاں جانتا ہوں ۔۔ اور تم اپنے شوہر کو مت بتانا کہ میں نے فون کیا تھا بہت غصہ ہو گا وہ۔۔۔ اور اپنا بہت خیال رکھنا اور اپنے کھڑوس شوہر کا بھی۔۔۔۔۔ وہ اسے ہدایت دیتا آخر میں شرارت سے گویا ہوا۔۔۔۔۔ جی آپ بھی اپنا خیال رکھنا ۔۔۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولی اوکے اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔۔وہ الوداعی کلمات ادا کرتا فون رکھ گیا ۔ اللّٰہ حافظ ۔ اگر بھائی سے باتیں ہوگئیں ہیں تو شوہر کو بھی پوچھ لو جو تھکا ہارا کام سے آیا ہے ۔۔۔۔۔اپنے پیچھے سپاٹ سی آواز سن کے وہ اچھل پڑی۔۔۔۔۔۔ ووو وہ مم میں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ یکلا کر بولتی کہ اس نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور کھانا لگانے کا کہتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ اف اللّٰہ جی ناراض ہو گئیے ۔۔۔۔۔۔ وہ بڑبڑاتی کچن میں آکر کھانا نکالنے لگی۔۔ وہ فریش ہو کر آیا تو وہ ڈایننگ پہ بیٹھی اسی کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔۔ مم میں نے فون نہیں کیا تھا انہیں کا فون آیا تھا اور آپ نے ان کو فون کرنے سے منع کیا تھا ان کا فون اُٹھانے سے نہیں اور۔۔۔۔۔۔ وہ فر فر بولتی اپنی بے گناہی کا یقین دلانے لگی کہ اس کے گھورنے پر ایک دم چپ کر گئی۔۔۔ اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتی وہ اور کُچھ نہ بولی اور خاموش ہو گئی ۔۔ پھر کھانے کے دوران سارا وقت خاموشی رہی اور کھانا کھا کر وہ اُٹھتا اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔ جبکہ وہ اس کی بے نیازی پہ نم ہوتی آنکھوں سے برتن سمیٹتی کچن میں چلی گئی ۔۔ برتن دھونے کے بعد وہ روم میں آئی تو وہ بیڈ کراون سےٹیک لگائے نیم دراز تھا اور ایک بازو آنکھوں پہ رکھا ہوا تھا جس سے پتہ نہ چلا کہ وہ سو رہا ہے یا جاگ رہا ہے وہ چپ کر کے اپنی سائیڈ پہ آ کے لیٹ گئی اور اس کی طرف پشت کر کے لیٹ گئی۔۔۔۔ اور بے آواز آنسو بہانے لگی۔۔۔ اور یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس کے کسی انداز سے بے خبر رہتا تھوڑی دیر وہ اس کے چپ ہونے کا ویٹ کرتا رہا لیکن اس کے رونے میں کمی تو نہیں مگر اضافہ ہو رہا تھا اس سے زیادہ اس سے برداشت نہ ہو اور احتاط سے اسے بازو سے کھینچتا خود میں بھینچ گیا کہ وہ بے اختیار اس کا کالر جکڑتی اونچی آواز میں رو پڑی۔۔۔۔ کیا ہو گیا ہے کُچھ کہا ہے میں نے تمہیں ؟؟ نہیں نا پھر کیوں رو رہی ہو؟؟ چپ کر جاو یار ہمارے بے بی پہ برا اثر پڑے گا اور وہ بھی روتو ہو گا ۔۔۔۔۔ وہ اس کا موڈ بحال کرنے کی خاطر شرارتی لہجے میں بولا اور اس نے اس کی بات سن کے اس کے سینے پہ چپت لگائی۔۔۔۔ آپ ناراض ہوتے ہیں تو غصہ کر لیا کریں ڈانٹ لیا کریں مگر مجھے نظرانداز مت کیا کریں بات کرنا مت چھوڑا کریں۔۔۔۔ آپ کی بے نیازی جان لے لیتی ہے میری ۔۔۔۔ وہ سسکیاں بھرتی بول رہی تھی اور اسے اس کے معصوم سے لہجے پہ پیار آرہا تھا۔۔۔ اچھا میرا شونا آج کے بعد کبھی نظرانداز نہیں کروں گا . بس ڈانٹ لیا کروں گا۔۔۔۔۔ وہ پھر شرارت سے بولا تو وہ اس کی طرف مسکر کے دیکھتی اس کے گرد بازو باندھ گئی۔۔ ایک بات مانو گی؟؟؟ وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔۔ جی اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے آپ کی سب باتیں تو مانتی ہوں۔۔۔۔ وہ الجھتے ہوئے بولی۔ میرے سامنے اس سے بات مت کیا کرو ۔۔۔ مجھے اس کا نام سن کے نفرت ہونے لگتی ہے اس سے۔۔۔۔ غصہ آتا ہے اس پر ۔۔۔۔ پلیز امیری غیر موجودگی میں بے شک بات کر لیا کرو مگر میرے سامنے نہیں۔۔۔۔۔ وہ بے بسی سے کہہ رہا تھا ۔۔۔ جیسے آپ دکھی ہیں ویسے وہ بھی اور ان کا تو زیادہ نقصان ہوا ہے ان کی سب سے بڑی خوشی ان سے دور ہو گئی ہے ان کا بھی تو سوچیں انہیں ہماری ضرورت ہے۔۔۔۔۔ وہ اسے سمجھا رہی تھی۔۔۔ اگر اس کی خوشی اس سے دور ہے تو اس کی اپنی وجہ سے اس نے اپنے ساتھ ہماری خوشیوں کو بھی تباہ کر دیا اور میں اسے معاف کبھی نہیں کروں گا ۔۔۔۔۔ وہ غصے سے بولا۔۔۔ ٹھ ٹھیک ہے آپ پلیز غصہ مت ہوں ۔۔۔۔۔۔ وہ گھبراتے ہوئے بولی۔۔۔۔ ہمم اب چپ کر کے سو جاو کافی رات ہو گئی ہے۔۔۔۔ وہ۔اس کا سر سہلاتا ہوا بولا ۔۔ آپ بھی سو جائیں ۔۔۔ وہ آنکھیں بند کرتی اس سے مخاطب ہوئی۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے ماتھے سے ماتھا ٹکائے لیٹ گیا اور جلد ہی نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments